کالی کوٹھری کی چڑیل

پہاڑوں کے دامن میں ایک دور افتادہ گاؤں “کَٹھّی وال” واقع تھا۔ یہ گاؤں خوبصورتی اور فطرت کی رعنائیوں سے مالا مال تھا، مگر یہاں ایک خوفناک راز بھی چھپا ہوا تھا۔ گاؤں کے ایک کنارے پر ایک پرانی، بوسیدہ کوٹھری موجود تھی۔ اس کی چھت آدھی گری ہوئی، دیواریں کائی سے اَٹی ہوئی، اور دروازہ زنگ آلود تھا۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے ہمیشہ بچوں کو تاکید کرتے تھے کہ اس کوٹھری کے قریب نہ جانا، کیونکہ وہاں ایک چڑیل رہتی ہے — ایسی چڑیل جو ہر پندرھویں رات کو نکلتی ہے اور کسی نہ کسی کو اپنی دنیا میں لے جاتی ہے۔

یہ باتیں نئی نسل کو ڈراوے سے زیادہ کچھ نہ لگتی تھیں۔ حاشر، جو حال ہی میں شہر سے گاؤں واپس آیا تھا، انہی نوجوانوں میں سے تھا جو ان روایات کو دقیانوسی اور بے بنیاد سمجھتے تھے۔ وہ تعلیم یافتہ تھا، سائنسی سوچ رکھتا تھا، اور ان باتوں پر ہنستا رہتا تھا۔ ایک دن شام کے وقت جب گاؤں کے لوگ مسجد کے باہر بیٹھے چائے پی رہے تھے، کسی نے مذاق میں کہا، “حاشر بھائی، اگر اتنے بہادر ہو تو اس کوٹھری میں جا کر ایک رات گزارو!” حاشر نے ہنستے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا اور کہا، “کیوں نہیں، آج ہی جاتا ہوں۔ کل صبح واپس آؤں گا، اور تم سب کو بتاؤں گا کہ چڑیل صرف تمہارے دماغ میں ہے۔”

اس رات چاند بادلوں میں چھپا ہوا تھا، اور ہواؤں میں عجیب سی سیٹیوں جیسی آوازیں تھیں۔ حاشر نے اپنے ہاتھ میں ایک تیل والا دیا لیا، اور چپ چاپ کوٹھری کی طرف روانہ ہوا۔ گاؤں والے دور سے دیکھتے رہے، کچھ نے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر وہ پکا ارادہ کر چکا تھا۔ دروازہ دھیرے سے چرچراتے ہوئے کھلا، اور وہ اندر داخل ہو گیا۔ اندر گہرا اندھیرا تھا، دیواروں پر پراسرار نشانات بنے ہوئے تھے، جیسے کسی نے ناخنوں سے کھینچے ہوں۔ کوٹھری میں ایک پرانی کرسی، ایک چٹائی، اور کونے میں ایک ٹوٹا ہوا آئینہ پڑا تھا، جس پر باریک دراڑیں تھیں۔ حاشر نے دیا رکھا اور چٹائی پر لیٹ گیا، لیکن نیند کہاں آنی تھی۔

آدھی رات کے وقت اسے محسوس ہوا کہ کوٹھری کا دروازہ خود بخود بند ہو گیا ہے۔ ایک دم سے ٹھنڈک کا احساس ہوا، جیسے ہوا کا جھونکا گزر گیا ہو۔ پھر اسے لگا کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ اس نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ لیکن جب وہ آئینے کی طرف نظر دوڑاتا ہے، تو ایک دھندلی سی عورت کا عکس دکھائی دیتا ہے — لمبے بال، سفید آنکھیں، اور ہونٹوں پر ایک کریہہ مسکراہٹ۔ حاشر کا رنگ زرد پڑ گیا۔ وہ اٹھا اور دروازہ کھولنے بھاگا، مگر دروازہ جیسے بند ہی ہو چکا تھا۔ وہ چیخا، مگر باہر کوئی سننے والا نہیں تھا۔ آئینہ اب دھندلا نہیں بلکہ صاف ہو چکا تھا، اور عورت کی شبیہ قریب آ رہی تھی، جیسے وہ آئینے سے باہر نکلنے والی ہو۔

پھر ایک گہری آواز گونجی، “تو بھی آیا؟ جیسے وہ سب آئے تھے!” آئینہ ٹوٹنے کی آواز آئی، اور کوٹھری کی دیواروں پر بنے نشان روشن ہو گئے، جیسے خون سے بھرے ہوں۔ حاشر کی سانسیں تیز ہو گئیں، اسے چکر آنے لگا۔ اگلے لمحے اسے کچھ یاد نہ رہا۔

صبح جب سورج نکلا، گاؤں کے لوگ کوٹھری کے باہر جمع تھے۔ دروازہ ہلکے سے کھل گیا، اور اندر صرف دیا جل رہا تھا۔ نہ حاشر تھا، نہ اس کی کوئی چیز۔ صرف آئینہ جوں کا توں موجود تھا، اور اس میں ایک نئی دراڑ… جیسے کسی نے اندر جانے کی کوشش کی ہو۔

اس دن کے بعد، حاشر کبھی واپس نہیں آیا۔ گاؤں میں اب یہ بات عام ہو چکی ہے کہ “کالی کوٹھری” صرف ایک چڑیل کا مسکن نہیں، بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں وقت اور روحیں قید ہو جاتی ہیں۔ اب وہاں جانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا — نہ مذاق میں، نہ ضد میں۔

Scroll to Top