کراچی کے ایک مصروف علاقے میں ایک چودہ سالہ لڑکا، علی رضا، اپنی والدہ کے ساتھ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا تھا۔ علی ایک ذہین مگر خیالوں میں گم رہنے والا لڑکا تھا۔ اسے سائنس اور تاریخ سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ اکثر وقت مشہور سائنسدانوں کی کتابیں پڑھنے اور یوٹیوب پر تاریخی ڈاکیومنٹریز دیکھنے میں گزارتا۔
اسکول میں اُسے “پروفیسر” کہہ کر چھیڑا جاتا کیونکہ وہ ہر سوال کا ایسا جواب دیتا جس میں مستقبل اور ماضی آپس میں جُڑے ہوتے۔ ایک دن، اس کے اسکول میں اعلان ہوا کہ طلبہ کو قریبی عجائب گھر کا دورہ کرایا جائے گا تاکہ وہ اپنے “تاریخی معلومات” کے پروجیکٹ کے لیے نوٹس بنا سکیں۔
علی کو عجائب گھر جانا ایسا لگا جیسے وہ خواب میں داخل ہو رہا ہو۔ وہاں پرانی تلواریں، سکے، زیورات، اور مجسمے رکھے تھے، مگر سب سے زیادہ دلچسپ چیز ایک بوسیدہ کتاب تھی جو ایک شیشے کے ڈبے میں رکھی تھی۔ اس کتاب کے ساتھ ایک تختی لگی تھی:
“یہ کتاب سلطنتِ نورالدین کے بادشاہ کی لائبریری سے ملی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں جادوئی راز پوشیدہ ہیں۔”
علی نے حیرت سے شیشے کو چھوا — مگر شیشے کے نیچے زمین ہلنے لگی، روشنی چمکی، اور سب کچھ دھندلا ہو گیا۔
جب علی نے آنکھیں کھولیں، تو وہ کسی عجیب جگہ پر تھا۔ زمین کچی، لوگ پرانے لباس میں، اور دور ایک شاندار محل نظر آ رہا تھا۔ علی نے اپنے اردگرد دیکھا، تو گھوڑوں کی ٹاپیں، نعلیں بنانے کی آواز، اور قافلے چلتے دکھائی دیے۔ علی کو جلد ہی احساس ہوا کہ وہ ماضی میں پہنچ چکا ہے — شاید کئی صدیوں پیچھے۔
سپاہیوں نے اُسے پکڑ لیا اور محل لے گئے۔ وہاں بادشاہ نورالدین شاہ نے خود اس سے سوالات کیے۔ علی کے بولنے کا انداز، اس کا لباس، اور اس کے جدید الفاظ نے سب کو حیران کر دیا۔

بادشاہ ایک نرم دل مگر سمجھدار حکمران تھا۔ وہ علم دوست تھا اور علی کی باتوں میں دلچسپی لینے لگا۔ علی نے پانی کو صاف کرنے کا جدید طریقہ، روشنی پیدا کرنے کا اصول، اور دھاتوں کی پہچان کے بارے میں بتایا۔ جلد ہی علی شاہی دربار کا خاص رکن بن گیا۔
مگر محل میں ہر کوئی خوش نہیں تھا۔ وزیرِ اعظم فہیم الدین، جو خود بادشاہ بننے کے خواب دیکھتا تھا، علی کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھنے لگا۔
ایک دن علی کو ایک خفیہ کمرہ ملا، جہاں پرانے نقشے، کوڈ شدہ خطوط، اور کچھ عجیب نشانیاں تھیں۔ ان میں سے ایک خط میں لکھا تھا:
“خزانہ اُس جگہ دفن ہے جہاں سورج مغرب سے نکلے، اور تین سائے ایک ہو جائیں۔”
علی نے وہ خط بادشاہ کو دکھایا۔ بادشاہ کو یاد آیا کہ اس کے والد نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ سلطنت کا خزانہ کہیں چھپا ہوا ہے، جو صرف امانت دار کو ملے گا۔
علی نے خفیہ نشانوں کی مدد سے معلوم کیا کہ وزیرِ اعظم ایک غدار ہے، جو دشمن ریاستوں سے رابطے میں ہے۔ علی نے بادشاہ کو قائل کیا کہ وقت ضائع کیے بغیر ایک خفیہ مشن پر روانہ ہونا چاہیے۔
رات کی تاریکی میں، بادشاہ، علی، اور چند وفادار سپاہی خزانے کے اشاروں کے ساتھ روانہ ہوئے۔ کئی دنوں کی تلاش کے بعد، ایک پرانی غار کے اندر، سورج کی روشنی، چٹانوں اور درختوں کے سائے نے وہی نشان بنایا — تین سائے ایک ہو گئے۔
وہاں کھدائی کی گئی، اور واقعی، سلطنتِ نورالدین کا کھویا ہوا خزانہ مل گیا۔
خزانے کے ملنے کے بعد بادشاہ نے علی کو بڑا انعام دیا، اور اُسے ہمیشہ کے لیے دربار کا مشیر بنانے کی پیشکش کی۔ مگر علی کا دل بے چین تھا — اُسے اپنے ماں باپ، اسکول، اور اپنے زمانے کی یاد ستا رہی تھی۔
بادشاہ اُسے محل کی لائبریری میں لے گیا اور وہی پراسرار کتاب دکھائی۔ “یہی کتاب تمہیں لائی تھی، اور یہی تمہیں واپس لے جائے گی،” بادشاہ نے کہا۔
علی نے کتاب کو ہاتھ لگایا، ایک بار پھر روشنی پھیلی، اور جب آنکھ کھلی — وہ عجائب گھر میں تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
مگر اس کی جیب میں سلطنت نورالدین کا سکہ تھا، اور دل میں ایک ناقابلِ فراموش سفر کی یاد…