ڈاکٹر ہارون ایک مشہور ویٹرنری ڈاکٹر تھے، جنہیں جانوروں سے بے حد محبت تھی۔ دن بھر پالتو جانوروں کا علاج کرنے کے بعد جب وہ شام کو کلینک سے گھر لوٹتے تو اکثر تھکے ہوئے ہوتے، مگر دل میں سکون ہوتا کہ انہوں نے بے زبانوں کی خدمت کی۔
ایک سرد شام، جب بارش کے بعد خنکی بڑھ چکی تھی، ڈاکٹر ہارون اپنی گاڑی میں واپس گھر جا رہے تھے۔ سڑک پر اندھیرا بڑھ رہا تھا، اور اردگرد زیادہ چہل پہل نہ تھی۔ اچانک ان کی نظر ایک سڑک کنارے زخمی بلی پر پڑی، جو سردی سے کانپ رہی تھی اور ہلنے کی بھی سکت نہیں رکھتی تھی۔
ڈاکٹر ہارون فوراً گاڑی روک کر نیچے اُترے۔ بلی کے جسم پر زخم تھے، ایک ٹانگ زخمی تھی، اور آنکھوں میں درد و خوف جھلک رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر فوری مدد نہ دی گئی تو یہ بلی رات نہ بچ پائے گی۔
انہوں نے اپنی جیکٹ اتاری اور بلی کو اس میں لپیٹ کر گاڑی میں رکھا۔ اسپتال تو بند ہو چکا تھا، مگر ڈاکٹر ہارون نے اُسی وقت اپنے گھر کو ایک عارضی کلینک بنا لیا۔ انہوں نے بلی کے زخم صاف کیے، دوا دی، اور گرم دودھ پلایا۔

بلی تھر تھرا رہی تھی، مگر ڈاکٹر ہارون کی نرمی نے اسے تھوڑا سکون دیا۔ رات بھر وہ بلی کے پاس بیٹھے رہے۔ صبح تک بلی کی حالت بہتر ہو چکی تھی۔ اب وہ تھوڑی تھوڑی آواز نکالنے لگی تھی، جیسے “شکریہ” کہہ رہی ہو۔
ڈاکٹر ہارون نے اُسے “سنو” نام دیا — کیونکہ وہ برف جیسی خاموش اور نرمی سے آئی تھی۔ سنو اب اُن کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔ کلینک آنے والے بچوں کا وہ پسندیدہ پالتو جانور بن گئی، اور ڈاکٹر ہارون کی محبت کا جیتا جاگتا ثبوت۔